لاہور: تحریک انصاف کی حکومت گزشتہ 27 ماہ سے غذائی بحران کا شکار ہے لیکن یہ بحران مکمل ختم نہیں ہو پا رہا گو کہ اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومت نے ہنگامی اقدامات اور انتظامی طاقت کے استعمال سے آٹا قلت اور اضافی قیمت کے مسئلہ کو حل کیا ہے لیکن یہ عارضی کامیابی ہے اور اصل چیلنج آئندہ گندم خریداری ہے۔

جس میں حکومت کی کوتاہی یا ناکامی ایک ایسے سنگین بحران کو جنم دے گی جو گزشتہ دو برس کے بحرانوں سے زیادہ سنگین ہوگا اور اس کی بھاری قیمت ملکی معیشت کو ادا کرنا پڑ سکتی ہے جیسا کہ اس وقت نجی شعبہ کی 14 لاکھ40 ہزار ٹن جبکہ حکومت کی جانب سے امپورٹ کی جانے والی 22 لاکھ ٹن گندم (مجموعی طورپر36 لاکھ40 ہزار ٹن)کی امپورٹ پر 1 ارب ڈالر (160 ارب پاکستانی روپے)کا کثیر زرمبادلہ خرچ کرنا پڑا ہے ۔گزشتہ سوا دو سال کی حکومتی فیصلہ سازی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہی آٹا گندم بحران  کی شدت میں کمی آنے لگتی ہے تو حکومت پھر کوئی ایسا فیصلہ کر دیتی ہے کہ بحران کی آگ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ بھڑک اٹھتی ہے۔

سندھ حکومت کی جانب سے 2 ہزار روپے قیمت کے تعین، کسان تنظیموں، سیاسی حلقوں اور اراکین اسمبلی کی جانب سے بھرپور مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے گندم کی امدادی قیمت خرید 1650 روپے فی من مقرر کرنے کا اعلان کردیا ہے لیکن پنجاب حکومت اب بھی چاہتی ہے کہ قیمت خرید1800 روپے فی من مقرر کی جائے،گزشتہ روز بھی صوبائی کابینہ میں اس معاملے پر غور ہوا ہے اور امکان ہے کہ پنجاب کا مطالبہ تسلیم کیا جائے گا۔

پنجاب حکومت کو ادراک ہے کہ 1800 قیمت پر سرکاری گودام بھرے جا سکتے ہیں اور کسانوں کی مایوسی کو بھی خوشی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جبکہ 1650 قیمت پر نہ تو اہداف حاصل ہوں گے بلکہ کسان حلقوں میں سیاسی ساکھ بھی مجروح ہو گی۔ پنجاب اور سندھ حکومت کی اعلان کردہ امدادی قیمت خرید میں350 روپے کے نمایاںفرق پر اپوزیشن بالخصوص پیپلز پارٹی سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں آخری حد تک جائے گی ۔ حکومت کا موقف ہے کہ اگر گندم کی امدادی قیمت خرید کو زیادہ رکھا جاتا ہے تو نہ صرف آٹا قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہوگا بلکہ افراط زر کی شرح بھی نہایت بلند ہو جائے گی۔

حکومتی موقف میں ٹھوس دلیل شامل ہے لیکن اس کا ایک سیاسی پہلو یہ ہے کہ حکومت آٹا قیمت میں اضافہ کی صورت میں اپوزیشن اور عوام کی جانب سے ممکنہ شدید ردعمل سے خوفزدہ ہو کر گندم کی امدادی قیمت خرید کو عوامی مطالبہ کے مطابق نہیں بڑھا رہی۔

پنجاب میں گندم کی بوائی شروع ہو چکی ہے اور محکمہ زراعت گندم کی کاشت کے مقررہ ہدف 1 کروڑ 63 لاکھ ایکڑ کی تکمیل کیلئے جدوجہد کر رہا ہے جس کے بعد اسے گندم پیداوار کیلئے مقرر کردہ غیر معمولی ہدف 2 کروڑ ٹن کو حاصل کرنے کیلئے ایک بڑی جدوجہد کرنا ہے لیکن خوش آئند امر یہ ہے کہ واصف خورشید جیسے محنتی سیکرٹری کے بعد اب محکمہ زراعت کو اسد الرحمن گیلانی جیسا بہترین سیکرٹری مل گیا ہے جو اپنی بھرپور کوشش کرے گا کہ اہداف حاصل ہو جائیں۔

زرعی و معاشی ماہرین کی اکثریت کا موقف ہے کہ امدادی قیمت خرید  سندھ سے کم ہونے سے پنجاب میں گندم کی کاشت اور پیداوار متاثر ہونے کی شرح دو فیصد سے زائد نہیں ہو گی۔اس کا سب سے بڑا سبب رواں برس اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت 2300 روپے فی من تک پہنچنا ہے جس سے کسان اور ٹریڈرز کو غیر معمولی منافع ہوا۔

آئندہ برس بھی گندم خریداری مہم کے دوران حکومت کی مقررہ 1650 روپے فی من قیمت کے مقابلے میں کسان کو نجی شعبہ کی جانب سے 1750 روپے یا اس سے زائد قیمت موصول ہو گی۔پنجاب حکومت نے آٹا بحران پر اس وقت بہت حد تک قابو پا لیا ہے جس کا کریڈٹ وزیرا عظم کے ساتھ ساتھ پنجاب کے چیف سیکرٹری اور سیکرٹری فوڈ کو جاتا ہے جبکہ چیئرمین فلورملز ایسوسی ایشن عاصم رضا نے بھی عوامی مفاد کی خاطر کئی حکومتی زیادتیاں برداشت کرتے ہوئے بہت مثبت کردار نبھایا ہے۔

یہ اہم ہے کہ15 کلو پیکنگ میں975 روپے تک فروخت ہونیوالے سپر آٹا کی فروخت بند کروا کر 860 روپے قیمت والے تھیلے کی فروخت نے مارکیٹ میں دو قیمتوں کے منفی تاثر کو ختم کیا ہے جبکہ اس فرق کی وجہ سے ہی وزیرا عظم کو آٹا کی زائد قیمت بارے رپورٹس دی جاتی تھیں جن پر وہ خفا ہوتے تھے لیکن اسی پندرہ کلو تھیلے نے آٹا قلت بحران میں ڈگمگاتی حکومت کو ’’ریسکیو‘‘ کیا تھا۔ وزیراعظم نے جس طرح کورونا سے لڑنے کیلئے ’’سمارٹ لاک ڈاون‘‘ کا طریقہ اپنایا ویسے ہی اب وزیراعظم کو ’’سمارٹ گندم خریداری‘‘ کی پالیسی اپنانا چاہیئے۔

ملک کی سب سے بڑی ’’فوڈ باسکٹ‘‘ پنجاب ہے لہذا پنجاب پر ہی زیادہ توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ گزشتہ دو گندم سیزن  کے دوران فلور ملنگ انڈسٹری پر’’پابندی‘‘ عائد کر کے ناقابل تلافی نقصان کیا گیا اس مرتبہ سب سے مناسب یہی ہوگا کہ گندم خریداری صرف حکومت اور فلور ملز کریں کیونکہ گندم کی END USER فلور ملز ہی ہیں۔ آڑھتیوں، جننگ فیکٹری مالکان، کاٹن فیکٹری مالکان، پولٹری فیڈ ملز، رائس مل مالکان کے گندم خریدنے پر مکمل اور سخت پابندی عائد کی جائے کیونکہ یہی وہ ذخیرہ اندوز ہیں جن کا ذکر وزیرا عظم کرتے ہیں اور انہی کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت بڑھتی ہے جس کا اثر آٹا قیمت پر بھی ہوتا ہے۔

گندم خریداری کے دوران  افغانستان سے منسلک سرحد سمیت پنجاب کی سرحد کو سختی سے سیل کیا جائے،خیبر پختونخوا یا بلوچستان حکومت کو اگر گندم درکار ہے تو وہ وفا ق یا پنجاب کے ذریعے حاصل کریں۔ سمارٹ گندم خریداری کے حوالے سے ایک تجویز ہے کہ حکومت پنجاب گندم خریداری سے دو ماہ قبل سٹیٹ بنک آف پاکستان کو ایک مراسلہ ارسال کرے جس میں درخواست کی جائے کہ حکومت اور فلورملز کے علاوہ کسی کو گندم خریدنے کیلئے قرضہ فراہم نہ کیا جائے۔

فلورملز کو بھی قرضہ دینے سے قبل ان سے گزشتہ ایک سال کے بجلی کے بل اور محکمہ خوراک سے حاصل کرد ہ گندم کوٹہ کی تفصیلات طلب کی جائیں اور پھر بجلی کے بل سے گرائنڈنگ کی شرح نکالتے ہوئے اس مقدار میں سے سرکاری کوٹہ کو منفی کر کے جو مقدار باقی بچے اسی تناسب سے قرضہ دیا جائے،اگر حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئی تو گندم کی اوپن مارکیٹ میں ٹریڈنگ کرنے والی 80 فیصد سے زائد ملیں ’’ذخیرہ اندوزی‘‘ کے مقاصد کیلئے گندم خریداری سے آوٹ ہو جائیں گی۔

خریداری سے قبل ہر فلورمل کی سالانہ گرائنڈنگ، آٹا سپلائی اور سٹاک پوزیشن کی تفصیلات حاصل کی جائیں اور بعد از خریداری بھی ڈیٹا حاصل کر کے سخت ترین مانیٹرنگ کی جائے۔ حکومت اور فلورملز کے درمیان گندم خریداری کے دوران’’پرائس وار‘‘ بھی ہو گی لیکن حکومت کو اپنے اہداف کی تکمیل کیلئے ماضی کی تباہ کن غلطیوں کو دہرانے سے پرہیز کرنا ہوگا۔

فلورملز کے گوداموں میں گندم موجود ہو گی تو ذخیرہ اندوزوں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور قیمتیں اعتدال پر رہیں گی جبکہ وزیر اعظم اور و زیر اعلی پنجاب گندم خریداری مہم میں سمارٹ پالیسی اختیار کرتے ہوئے حکومت اور نجی شعبہ کے درمیان فائدہ مند توازن قائم رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو آئندہ برس آٹا بحران سے عوام کو نجات مل سکتی ہے بصورت دیگر آنے والا بحران آج کے بحران سے بہت زیادہ سنگین ہوگا۔آٹا بحران کے فاتح چیف سیکرٹری پنجاب کو اب غیر جانبداری سے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگلی گندم خریداری مہم مشکل ہو گی اور اس کیلئے تجربہ کار ڈپٹی ڈائریکٹر ہی کارآمد ہوں گے۔

ڈیپوٹیشن پر اس وقت محکمہ خوراک پنجاب کی8آپریشنل آسامیوں پر تعینات افسروں میں سے دو یا تین واقعی بہت عمدہ افسر ہیں لیکن باقی کے سب بقول وزیرا عظم پاکستان’’ریلو کٹے‘‘ ہیں لہذا سیکرٹری فوڈ کی مشاورت اور سخت سکروٹنی کے بعد محکمہ خوراک کے اپنے کیڈر کے دستیاب افسروں میں سے بہترین کو دوبارہ فیلڈ میں  تعینات کرنا مستقبل کی خریداری کیلئے بھی اچھا ہوگا اور محکمہ کے اندر موجود احساس کمتری بھی ختم ہوگا۔

ویسے بھی ٹیم میں سب سپر سٹار نہیں ہوتے، جب جواد رفیق ملک ڈیپوٹیشن پر ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ تعینات تھے تب دو یا تین دیگر افسر بھی ڈیپوٹیشن پر تعینات تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی جواد رفیق ملک جیسی عمدہ کارکردگی نہیں دکھا سکا تھا اورا س وقت بھی محکمانہ کیڈر اور ڈیپوٹیشن افسروں کی مشترکہ ٹیم ہی کامیاب ثابت ہوئی تھی۔

The post اسمارٹ گندم خریداری پالیسی بحرانوں کو ختم کر سکتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.